یو بینک میں، ہم ضرورت مندافراد کی خدمت کرکے اور ایک بہتر مستقبل میں اپنا حصہ ڈال کر مالی شمولیت کے اپنے وژن کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
شکارپور، سندھ کے شیخ محلہ کے رہائشی یاسر شیخ کا ہمیشہ سے اپنا کاروبار کرنے کا خواب تھا۔ ابتدا میں وہ ایک چھوٹی سی ریڑھی پر اسنیکس بیچا کرتے تھے، لیکن محنت اور عزم سے انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی گروسری کی دکان کھول لی۔ جیسے جیسے ان کا خاندان بڑا ہوتا گیا، یاسر کو اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوانے کی خواہش بھی بڑھنے لگی۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بہترین پرائیویٹ اسکول میں داخل کروایا، لیکن جلد ہی اسکول فیس اور روزمرہ کے اخراجات کا بوجھ زیادہ ہونے لگا۔ اس مشکل وقت میں یاسر نے یو بینک سے رابطہ کیا، جہاں بینک کے عملے نے انہیں "بڑھتا کاروبار پلس" لون کی سہولت کے بارے میں بتایا۔ یاسر نے جلد ہی یہ قرض حاصل کیا اور اس سے اپنے کاروبار کو وسعت دی۔ ایک سال کے اندر اندر، انہوں نے نہ صرف اپنا قرض چکا دیا بلکہ اپنی دکان کو مزید بہتر بنا لیا۔ آج ان کے اسٹور میں مختلف اقسام کی پراڈکٹس دستیاب ہیں، ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور ان کے بچے اس معیاری تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں جس کا یاسر نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا۔ یاسر شیخ کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ یو بینک کی مالی مدد کس طرح چھوٹے کاروباروں کو بڑھاوا دے کر لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہے
محمد اقبال قادری، جو پنجاب، پاکستان کے علاقے ساہیوال کے اڈہ شبیل سے تعلق رکھتے ہیں، ایک پُرعزم کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ پہلے ایک چھوٹی فارمیسی میں سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے، لیکن اپنی محنت اور لگن کی بدولت، انہوں نے ساہیوال میں اپنی دکان کھولنے کا فیصلہ کیا۔ ساہیوال، جہاں سے وہ تعلق رکھتے ہیں، ایک زرعی علاقہ ہے اور ان کا خاندان روایتی طور پر کسان تھا۔ 2006 اور 2007 کے درمیان، اقبال نے سیلز مین کے طور پر کام کیا، لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا ریٹیل اسٹور کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی دکان کو بڑھانے اور گاہکوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے، انہیں مزید سرمائے کی ضرورت تھی۔ دوستوں کی مشورے سے، انہوں نے یو بینک اسلامی بینکنگ کے "اپنا کاروبار پریمیم مرابحہ" فنانسنگ سہولت کا دو مرتبہ استعمال کیا تاکہ اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ آج، اقبال اپنی دکان کے مالک ہیں، انہوں نے اپنی دکان میں مزید سامان اور اقسام کا اضافہ کیا ہے، انہیں اب کرایہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں، ان کے بچے بہترین اسکولز میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور وہ ایک بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
رحیم یار خان کے قصبے راجن پور کلاں میں، جہاں زراعت لوگوں کی روزی روٹی کا بنیادی ذریعہ ہے، جام شبیر احمد کو کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ اپنی زمین نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک زمیندار کے کھیتوں پر کام کرتے تھے، اور زندگی کی ضروریات پوری کرنا ایک چیلنج تھا۔ مگر ہمت نہ ہارنے والے شبیر نے اپنی محنت کے بل بوتے پر آٹا اور دالوں کی چکی قائم کی، یہاں تک کہ سرسوں کے تیل کا کاروبار بھی شروع کیا۔ تاہم، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی مستقل پریشانیوں نے ان کی محنت کو متاثر کیا اور کاروباری اخراجات بڑھتے گئے۔ اس دوران ایک دوست کے مشورے پر شبیر نے یو بینک سے رابطہ کیا، جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ انہوں نے یو بینک کی سولر فنانسنگ حاصل کی، اور چند دنوں میں ان کی چکی پر سولر پینلز نصب ہو گئے۔ اس اقدام نے نہ صرف ان کی چکی کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلنے دیا بلکہ ان کے گھر کو بھی بجلی کی فراہمی ممکن بنا دی، جس سے ان کی پیداوار اور آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بجلی کے بلوں اور لوڈ شیڈنگ کی فکر سے آزاد، اب شبیر کا پورا دھیان اپنے کاروبار کو مزید وسعت دینے اور مستقبل کے منصوبوں پر ہے۔ یو بینک کی جانب سے مالی معاونت، شبیر کی زندگی میں مثبت تبدیلی لائی، اور ان کی کہانی اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح مالی سہولتیں دیہی اور زرعی علاقوں میں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر کرکتی ہیں۔
سندھ کے چھوٹے سے دیہی علاقے پیر جو گوٹھ سے تعلق رکھنے والے راجہ ملاح نے ہمیشہ اپنے کاروبار کا خواب دیکھا تھا۔ برسوں تک وہ ایک کپڑوں کی دکان میں سیلز مین کے طور پر کام کرتے رہے، مگر ان کی محدود تنخواہ بڑھتی ہوئی فیملی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی تھی۔ اپنے شہر میں سیاحت کی بڑھتی ہوئی رونقوں کو دیکھتے ہوئے، راجہ نے مین چوک پر اپنی کپڑوں کی دکان کھولنے کا ارادہ کیا، جہاں وہ مقامی افراد اور سیاحوں کے لیے مختلف اقسام کے کپڑے فروخت کر سکیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا۔ لیکن راجہ نے ہمت نہیں ہاری اور یو بینک کے "خود مختار لون" کا سہارا لیا۔ اس مالی معاونت کی بدولت انہوں نے نہ صرف اپنا کاروبار دوبارہ مستحکم کیا بلکہ اپنی انوینٹری کو بھی بڑھا کر سیاحوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کیا۔ آج راجہ کی کپڑوں کی دکان کامیابی سے چل رہی ہے، اوربہترین آمدنی کا ذریعہ بن رہی ہے اور ان کے خاندان کو مالی طور پر محفوظ بنا رہی ہے۔ یو بینک کا خود مختار لون ان کے کاروباری خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا ایک اہم ذریعہ ثابت ہوا، جس نے انہیں مشکلات سے نکلنے اور اپنی زندگی کے معیار کو بہتر کرنے میں مدد دی۔
محمد ندیم، جو کئی برس سعودی عرب میں محنت کرنے کے بعد 2017 میں اپنے گاؤں پسرور، ضلع سیالکوٹ واپس آئے، محمد ندیم نے یہ محسوس کیا کہ ان کے علاقے میں معیاری تعلیمی اداروں کی سخت کمی ہے۔ اپنے علاقے کے بچوں کے لیے کچھ کرنے کے عزم کے ساتھ، انہوں نے ایک پراپرٹی خرید کر اسکول قائم کیا۔ ان کی اور اساتذہ کی انتھک محنت سے بچوں کو ایک معیاری تعلیمی ماحول فراہم کیا گیا۔ تاہم، دور دراز دیہاتوں سے بچوں کا اسکول پہنچنا مشکل تھا کیونکہ وہ 5 سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھے۔ اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے، ندیم نے یو بینک سے 20 لاکھ روپے کا "سرمایہ تعلیم" قرض حاصل کیا، جس سے انہوں نے ایک کوسٹر خریدی اور بچوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا۔ آج ندیم کے اسکول میں بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ کامیابی سے چل رہا ہےاور علم کے دئے جلا رہا ہے۔ ندیم کی یہ کاوش نہ صرف ان کے علاقے میں تعلیم کی رسائی کو بہتر بنا رہی ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ جب مالی مدد اور حوصلہ ساتھ ہو، تو خواب حقیقت میں بدل جاتے ہیں۔ ندیم یو بینک کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جن کی فوری مدد اور تعاون نے انہیں اپنے مشن میں کامیاب کیا۔
دلاور وحید، جھنگ کے ایک محنتی کسان، پچھلے تین برسوں سے مویشی پالنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ جب مارکیٹ بحران کا شکار ہوئی تو دلاور کو اپنے کاروبار کو بچانے کے لیے مزید مویشیوں کی ضرورت پیش آئی۔ اس موقع پر یو بینک کے لائیو اسٹاک لون نے ان کی مدد کی۔ اس قرض سے انہوں نے نہ صرف مزید مویشی خریدے بلکہ اپنے کاروبار کو بھی وسعت دی، جس میں دودھ کی پیداوار اور ذبیحہ دونوں شامل تھے۔ اس سے ان کے منافع میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اور انہوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں بھی دیں، جس سے مقامی معیشت کو بھی فائدہ پہنچا۔ یو بینک کا لائیو اسٹاک لون دلاور کی کامیابی کا ایک اہم حصہ بنا، جس نے نہ صرف ان کے کاروبار کو مشکلات سے نکالا بلکہ ان کے اور ان کی کمیونٹی کے لیے بہتر مستقبل کی راہ ہموار کی۔
ابو ہریرہ خان، ٹوبہ تحصیل گوجرہ کے ایک چھوٹے کاروباری، گزشتہ چھ سال سے اپنا جنرل اسٹور چلا رہے ہیں۔ زراعت پر انحصار کرتی اس کمیونٹی میں ان کی دکان بنیادی ضرورت کی اشیاء کا ایک اہم مرکز بن چکی ہے۔ مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی کا دور آگے بڑھا، انہیں احساس ہوا کہ اپنے کاروبار کو ترقی دینے کے لیے اسے ڈیجیٹل دنیا سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ آن لائن ادائیگیاں، واٹس ایپ کے ذریعے رسیدیں، اور آن لائن خریداری کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے ابو ہریرہ کو ایک اسمارٹ فون خریدنے پر مجبور کیا۔ مگر دکان کے پیسے خرچ کرنے سے ان کی کاروباری سرگرمیاں متاثر ہو سکتی تھیں۔ ایسے میں، ایک دوست کے مشورے پر، انہوں نے یو بینک کی "موبائل اور لیپ ٹاپ فنانسنگ" کا فائدہ اٹھایا۔ یو بینک کی مدد سے انہوں نے ایک اسمارٹ فون خریدا جس سے ان کا کام کئی گنا آسان ہو گیا۔ اب وہ نہ صرف اپنی انوینٹری کو بہتر طریقے سے منظم کر رہے ہیں، بلکہ سپلائیرز کو واٹس ایپ کے ذریعے آرڈرز اور گاہکوں کو ڈیجیٹل رسیدیں بھیج رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، وہ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے کاروباری مہارتیں سیکھ کر اپنی دکان کو مزید ترقی دے رہے ہیں۔ یو بینک کی مدد سے ابو ہریرہ نے اپنے کاروبار کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے، اور وہ بدلتی ہوئی مارکیٹ میں کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
بیلوٹ شریف، ڈیرہ اسماعیل خان کے کسان سلیم عباس پچھلے 20 برس سے اپنی 2000 کنال زمین پر گندم، گنا، مکئی اور کھجور کی کاشت کر رہے ہیں۔ ان کی محنت نہ صرف ان کے خاندان کے لیے روزگار کا ذریعہ ہے بلکہ ان کے علاقے کے ضرورت مند لوگوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ ان کی اس جہد میں مشکل اس وقت درپیش آئی جب ان کا پرانا ٹریکٹر، جو ان کی زمین کے لیے نہایت ضروری تھا، خراب ہو گیا، اور نیا خریدنے کے لیے ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ اسی مشکل میں، سلیم نے یو بینک کی "آسان کاشتکار" اسکیم کے ذریعے 30 لاکھ روپے کا قرض حاصل کیا۔ اس رقم سے انہوں نے نیا ٹریکٹر خریدا، جس سے ان کے کھیت میں کام کی رفتار میں زبردست بہتری آئی اور پیداوار میں اضافہ ہوا۔ سلیم نے نہ صرف خود فائدہ اٹھایا بلکہ اپنے ٹریکٹر کو دیگر کسانوں کو بھی کرائے پر دے کر ان کی مدد کی۔ یو بینک کے تعاون نے سلیم کی زندگی میں آسانیاں پیدا کیں اور ان کے فارم کو مزید منافع بخش بنایا۔ یو بینک کی بدولت، دیہی علاقوں کے کسانوں کو نئی امید ملی ہے اور زراعت میں ترقی کا راستہ ہموار ہو رہا ہے۔
سرائے مہاجر، بھکر کے نعمان عقیل، جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے اپنا چھوٹا ساجنرل اسٹور چلا رہے ہیں، ہمیشہ سفری مشکلات کا شکار رہے۔ رکشوں اور بسوں پر روزانہ کا خرچ اور گھنٹوں پبلک ٹرانسپورٹ کا انتظار ان کی زندگی کا معمول بن گیا تھا۔ اسٹور ان کے گھر سے 15-18 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، اور انہیں اپنے کاروبار اور بچوں کو اسکول لے جانے کے لیے ایک بہتر سفری حل کی ضرورت تھی۔اپنی موٹر سائیکل خریدنا ان کے لئے محض ایک خواب ہی تھا، لیکن پھر یو بینک کی موٹر سائیکل لون اسکیم نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ یو بینک کی مدد سے، نعمان نے موٹر سائیکل حاصل کر لی، جس نے ان کی سفری مشکلات کو سہل بنا دیا۔ اب وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے کام کو سنبھالتے ہیں، بچوں کو وقت پر اسکول چھوڑتے ہیں، اور سفری اخراجات میں نمایاں کمی کر چکے ہیں۔ یو بینک کی بدولت، نعمان کی زندگی میں سکون اور سہولت آ گئی ہے، جس نے انہیں اپنی فیملی اور کاروبار پر پوری توجہ مرکوز کرنے کا موقع دیا ہے۔
علی پور، مظفر گڑھ کے اقبال حسین، جو زراعت اور مویشی پالنے کا کام کرتے ہیں، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ ان کی 10 ایکڑ زمین پر گندم اور کپاس اگائی جاتی ہے، اور ساتھ ہی وہ آٹا چکی بھی چلاتے ہیں۔ بجلی کے بھاری اخراجات ان کے کاروبار کی کمائی کو متاثر کر رہے تھے۔ اقبال نے یو بینک کی سولر فنانسنگ کا فائدہ اٹھایا اور اپنے ٹیوب ویل اور آٹا چکی کو سولر پاور پر منتقل کیا۔ اس تبدیلی نے نہ صرف ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھایا بلکہ منافع میں بھی نمایاں اضافہ کیا۔ آج اقبال کا کاروبار پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم اور منافع بخش ہے، جس کی وجہ سے وہ بجلی کے اخراجات کی فکر سے آزاد ہو چکے ہیں
پشاور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سمن ہمیشہ سے اپنی ڈینٹل کلینک کھولنے کا خواب دیکھتی تھیں۔ جب وہ ایبٹ آباد منتقل ہوئیں تو انہیں ایک مشکل مارکیٹ کا سامنا تھا جہاں لوگ نئی سروسز پر بھروسہ کرنے میں ہچکچاتے تھے۔ تاہم، ان کی لگن اور یو بینک کے "شانہ بشانہ" لون نے ان کا راستہ آسان کر دیا۔ اس قرض کی مدد سے، ڈاکٹر سمن نے اپنے کلینک کے لیے جدید ترین آلات خریدے، جس سے نہ صرف ان کی سروس کا معیار بہتر ہوا بلکہ مریضوں کا اعتماد بھی بڑھا۔ آج ان کا کلینک ایک مستحکم آمدنی فراہم کر رہا ہے، اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ صحیح سپورٹ کے ساتھ کامیابی ممکن ہے۔ یو بینک کا "شانہ بشانہ لون" نہ صرف ڈاکٹر سمن کو ان کا خواب پورا کرنے میں مدد دے رہا ہے بلکہ خواتین کو اپنا بزنس شروع کرنے اور کامیاب ہونے کے لیے مالی مواقع فراہم کر کے انہیں مالی خودمختار بنا رہا ہے۔
غلام حسین نے اپنے خاندان کے مالی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمیشہ اپنا ذاتی کاروبار شروع کرنے کا خواب دیکھا۔ سندھ کے چھوٹے سے شہر ٹھٹھہ میں رہتے ہوئے، اس کے پاس نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے فنڈنگ کے زیادہ آپشن نہیں تھے۔ یو بینک کی خود مختار لون کی سہولت سے اس نے13لاکھ روپے کا قرضہ حاصل کیا۔ اس رقم سے، اس نے دودھ کی اپنی دکان کھولی، ضروری سامان خریدا اور اب اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کافی کمالیتا ہے۔ اس نے دکان کو بھی بڑا کیا ہے اور اب اس کا ارادہ ہے کہ دکان کوچلانے کے لیے اپنے بیٹے کو بھی ساتھ شامل کیا جائے۔ غلام حسین کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے کاروبار کو ایک کیٹل فارم کی صورت میں بڑھائیں گے اور آنے والی نسلوں کے لیے فیملی بزنس کو فروغ دیں گے۔ غلام حسین جوکھیو،ٹھٹھہ،صوبہ سندھ
قدیم شہر ہڑپہ سے تعلق رکھنے والی عذرا اپنے گھر میں کپڑے کا چھوٹا سا کاروبار چلاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ایک محنتی اور خود مختار خاتون رہی ہیں، جبکہ ان کے شوہر ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ان کے شوہر کی پنشن اور کپڑوں کا کاروبار تھا۔ تاہم، مہنگائی اور اخراجات میں اضافے کے باعث وہ اپنی مالی حالت اور بچت کے حوالے سے فکر مند تھیں۔اپنے مالی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے، عذرا ایک ایسی مالی سروس کی تلاش میں تھیں جو ان کی بچت پر اضافی آمدنی فراہم کر سکے۔ تب انہیں یو بینک کے محفوظ بچت اکاؤنٹ کی معلومات ملی، جس کی مدد سے وہ اپنی رقم محفوظ رکھتے ہوئے ہر ماہ ایک منافع کما سکتی تھیں۔ اس فیصلے نے نہ صرف ان کی کمائی میں اضافہ کیا بلکہ بچوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے میں بھی آسانی فراہم کی۔ عذرا ناہید تبسم، ہڑپہ، صوبہ سندھ
اپنے شوہر کے انتقال کے بعد عالیہ بی بی اکیلے اپنے بچوں اور ان کے اخراجات کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ساہیوال میں رہتے ہوئے، اس کے پاس پیسے بچانے یا اپنی آمدنی بڑھانے کے محدود مواقع تھے۔ اپنے بچوں کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ضروریات کے اخراجات پورے کرنا اس کے لیے ایک چیلنج تھا۔ تاہم، حالات بدل گئے جب اس نے اپنی بچت کو یو بینک کے ثمر ٹرم ڈپازٹ اکاؤنٹ میں لگایا۔ اب، وہ اپنے ماہانہ اخراجات، اپنے بچوں کے اسکول کی فیس وغیرہ کو بہتر طریقے سے سنبھالنے کے لیے ہر ماہ اپنی بچت پر بہترین ریٹرن حاصل کرتی ہیں۔ عالیہ بی بی، ساہیوال، صوبہ پنجاب
پنجاب کے چھوٹے سے شہر گوجرہ سے تعلق رکھنے والے غلام عباس لڑکیوں کا سکول چلاتے ہیں۔ پلے گروپ سے مڈل تک 110 طلباء کے ساتھ،انہوں نے 2017 میں لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے گرلز سکول کا آغاز کیا۔ اسکول نے ترقی بھی کی اور یہاں کے لوگوں کی خدمد بھی کی۔غلام عباس چاہتے تھے کہ مزید طلباء کو سکول میں لانے اور آمدنی بڑھانے کے لیے سکول کی تزئین و آرائش کی جائے۔سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں یو بینک کی سرمایہ تعلیم لون کی سہولت کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے سکول کے صحن کو اپ گریڈ کرنے، تزئین و آرائش، ڈیسک، میز، کرسیاں اور بلیک بورڈ خریدنے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے کا لون لینے کے لیے درخواست دی۔ تزئین و آرائش اور نئے سامان کی خریداری کی بدولت وہ نئے داخلے حاصل کرنے اور اپنے شہر میں لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنے کی کوششوں میں بہتری لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ غلام عباس،گوجرہ،صوبہ پنجاب
یونائیٹڈ کنگ کراچی کی ایک مشہور سویٹ اینڈ بیکرز شاپ ہے جو اپنی 16 برانچز کے نیٹ ورک کے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے تقریباً 200 سے زائد پراڈکٹس پیش کر رہے ہیں۔ اس انڈسٹری میں وہ کئی سال کی مسلسل ترقی کے ساتھ مارکیٹ لیڈرز میں شمار ہوتے ہیں۔ تنخواہوں کی تقسیم میں تاخیر سے بچنے کے لیے، انہوں نے اپنے ملازمین کو تنخواہیں تقسیم کرنے کے لیے یو بینک کی برانچ لیس بینکنگ کی سروسز کا استعمال شروع کر دیا اور ایک قابل اعتماد مالیاتی پارٹنر کے طور پر یو بینک پر انحصار کررہے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگ - بیکرز اینڈ نمکو
ایاز میمن سندھ کے شہر میرپور ساکرو میں فلور مل چلاتے ہیں۔ ان کی ملز کے لیے قابل اعتماد اور سستی بجلی تک رسائی بہت اہم ہے تاہم بجلی کے بار بار تعطل اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ان کی پیداواری صلاحیت شدید متاثر ہوتی رہی ہے مزید یہ کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی میں آٹا سستا رکھنے کی کوششوں نے ان کے لیے بجلی کے بھاری اخراجات کو پورا کرنا مشکل بنا دیاہے۔ ایاز کے ایک دوست نے یو بینک کی سولر فنانسنگ کی سہولت تجویز کی، جس سے اس نے اپنی مل میں سولر پینل خریدنے اور انسٹال کرنے کے لیے دس لاکھ روپے کا قرض حاصل کیا۔ اس فیصلے سے اسے بجلی کے بلز پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے سے زیادہ بچانے میں مدد ملی ہے۔شمسی توانائی کے بارے میں ان کے محدود علم کے باوجود، یو بینک کے معاون عملے نے اپنے کاروبار اور کمیونٹی کے لیے دانشمندانہ انتخاب کرنے میں ان کی رہنمائی کی۔ ایازمیمن اب غیر قابل تجدید توانائی کے ذرائع پر اپنا انحصار کم کرنے اور اپنی ملز کے کاربن فوٹ پرنٹ کو بھی کم کرنے پر خوش ہیں۔ ایاز میمن، میرپور ساکرو، صوبہ سندھ
الکرم ٹیکسٹائل ملز کا ذیلی ادارہ الکرم اسٹوڈیو تقریباً 13 سال قبل فیشن ریٹیل انڈسٹری میں داخل ہوا۔ الکرم ٹیکسٹائل ملز جدید ٹیکسٹائل سلوشنز فراہم کرنے والا عالمی ادارہ ہے اور اس کا پورے پاکستان میں 50 سے زیادہ ریٹیل اسٹورز کا نیٹ ورک موجودہے۔ یو بینک ریٹیل اسٹورز، فیکٹریوں، ڈیلیوری بوائز اور عملہ صفائی وغیرہ پر مشتمل ان کے ملازمین کے لیے ماہانہ پے رول کی تقسیم کا عمل سنبھال رہاہے۔ اس کے ساتھ، یو بینک ان کے ملازمین کو ڈیجیٹل مالیاتی حل بھی فراہم کررہاہے جو اس پہلے نقدی پر انحصار کرتے تھے۔ الکرم اسٹوڈیو
بلیو-EX یونیورسل نیٹ ورک سسٹمز (UNS) کا ایک ذیلی برانڈ ہے - ایک معروف پاکستانی تنظیم جو 2005 میں شروع کی گئی تھی۔ موٹر سائیکل سواروں پر انحصار کرنے والی ایک لاجسٹک کمپنی کے طور پر کام کرنے والی، ''Blue-EX'' پاکستان میں 2011 سے کام کر رہی ہے، جس کے ساتھ کمپنی ملک بھر کے 38 سے زیادہ شہروں میں کام کر رہی ہے۔ پہلے، Blue-EX اپنے پے رول کی تقسیم کے عمل کے لیے تاریخ کی، روایتی بینکنگ خدمات استعمال کر رہا تھا۔ یہ ان کے عملے کے لیے رکاوٹ بن گئے جنہوں نے ادائیگیوں کی نگرانی کے مسائل کی شکایت کی۔ اس کے بعد تنظیم نے U Bank کی UPaisa - ڈیجیٹل سروسز کا انتخاب کیا جس نے کمپنی کے پے رول اکاؤنٹس کو بغیر کسی رکاوٹ کے بدلنے کی اجازت دی، جس سے ملازمین کی زندگیاں بہت آسان ہوگئیں۔ یو بینک کے ملک گیر آپریشنز کے ساتھ، ان کے رائیڈرز کے پاس اب پاکستان کے انتہائی دور دراز علاقوں سے بھی اے ٹی ایم سروسز استعمال کرنے کا اختیار ہے، جس سے وہ برانچ کے دورے کی ضرورت کے بغیر اپنے فنڈز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
خوازہ خیلہ سوات کے رہائشی سید رحیم چار سال سے اپنے فش فارم کے مالک ہیں۔سوات کے ایسے علاقہ میں جہاں فش فارمز کا بزنس تیزی سے پھل پھول رہا تھا۔ سید رحیم کو بھی اپنا کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی تاہم اسے کاشتکاری کے اپنے کاروبار کو چلانے اور مزید بڑھانے کے لیے وسائل کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ یو بینک کے ذریعے سید رحیم”بڑھتا کاروبار لون“(MSME لون) کو استعمال میں لانے میں کامیاب رہے جس نے انہیں اپنے کاروبار کو اگلے درجے تک لے جانے کا موقع دیا۔ اس قرضہ نے اسے اپنے فارم کے سائز کو کافی حد تک بڑھانے میں مدد دی۔ سید رحیم کا کاروبار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ شہر کے بازاروں میں تجارت کرتے ہوئے تھوک فروش کا کام کرتے ہیں۔ اپنے پورے سفر کے دوران، سید رحیم نے بینک کی کسٹمر سروس کی تعریف کی، جس نے ان کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کی اور اسے اپنے کاروبار اور فارموں کے لیے وسیع تر توسیع کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھنے کی سید رحیم کا کاروبار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اب وہ شہر کے بازاروں میں تجارت کرتے ہوئے تھوک فروش کا کام کرتے ہیں۔ اپنے پورے سفر کے دوران، سید رحیم نے بینک کی کسٹمر سروس کی تعریف کی، جس نے ان کے مقاصد کو حاصل کرنے میں ان کی مدد کی اور اسے اپنے کاروبار اور فارموں کے لیے وسیع تر توسیع کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھنے کی اجازت دی۔
حفیظ شکیل حسین شاہ نے باغ، آزاد کشمیر کی سڑکوں پر ایک عام سے پھل اور سبزی فروش کے طور پرکام شروع کیا، انہوں نے گھرگھر جا کر بھی یہ چیزیں فروخت کیں۔اپنی معمولی شروعات کے باوجود، حفیظ نے اپنے کاروبار اور اپنی فروخت کو بڑھانے میں مدد کے لیے ایک کمرشل گاڑی کرائے پر حاصل کی۔ تاہم، گاڑی کے کرائے نے اس میں رکاوٹ پیدا کی اور اس کی آمدنی پر منفی اثرات ڈالنا شروع کردیے۔ اسے لاجسٹک مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس کی ڈیلیوری میں اکثر دیر ہوجاتی تھی اور اسے اپنے صارفین کی جانب سے متعدد شکایات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس بات کے پیش نظر کہ ان باتوں کا اس کے کاروبار پر منفی اثر پڑ سکتاہے اس نے اپنے بزنس کے لیے ذاتی گاڑی خریدنے کے لیے مالی معاونت کی راہیں ڈھونڈنا شروع کردیں۔اس دوران ان کا رابطہ یو مائیکرو فنانس بینک کے ساتھ ہوا اوروہ کمرشل وہیکل فنانسنگ کے ذریعے قرض حاصل کرنے کے کامیاب ہوگیا۔ حفیظ نے اس سے اپنی ذاتی گاڑی خرید لی،اب وہ اپنے صارفین کو بروقت اور مستقل بنیادوں پر سبزیاں پہنچاتے ہیں۔یو بینک کی کسٹمر سروسز کے ساتھ اس کے مثبت تجربے اور اقساط کی آسان ادائیگی کی سہولت کے ساتھ،حفیظ اب اپنے کاروبار کو مزیدوسعت دینے کے لیے ایک اور گاڑی خریدنے کابھی سوچ رہاہے۔
کراچی کے علاقے لیاقت آباد کی رہائشی روحی آصف اپنے شوہر کے انتقال کے بعدسے دو بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سخت محنت کر رہی تھیں۔ ایک بیوہ اور اکیلی ماں کے طور پر، وہ اپنے بچوں کی واحد کفل تھی جس کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ جدوجہد کرنا پڑی۔اپنی الگ رہائش کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے، روحی کو اپنے بچوں کی کفالت میں مدد کے لیے اپنے بھائی کے خاندان کی طرف جانا پڑا۔ روحی کے پاس مشترکہ اثاثوں اور بچت کی کوششوں کے باوجود اپنے خاندان کے لیے الگ رہائش کے لیے مالی وسائل کی کمی تھی۔ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی جدوجہد کے دوران اس نے ایک جاننے والے سے مشورہ کیا جس نے اسے یو مائیکرو فنانس بینک کے پاس بھیج دیا اور پھر حالات یکسر بدل گئے۔ بینک کی افہام و تفہیم اور کوآپریٹو سروس کی مدد سے روحی کو تنخواہ لون کی سفارش کی گئی جس نے مالی مسائل پر قابو پانے میں اس کی مدد کی اوراسے قرض کی ادائیگی میں معاونت کی۔ روحی اب الگ جگہ پر اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہے۔
ٹنڈو الہ یار کے علاقہ چمبڑ کے رہائشی سیف الرحمان میمن نے چھوٹی عمر میں ہی مویشی پالنا شروع کیا جو 15 سال سے یہ کام کررہاہے۔اس نے اپنے کاروبار کا آغاز صرف دو گائیوں کے ساتھ کیا،چمبڑ میں دودھ کی طلب میں اضافہ ہونے سے پہلے پہلے انہوں نے چھوٹے پیمانے پر دودھ کی فروخت کا کام شروع کیا۔تاہم، اپنی ابتدائی کامیابی کے باوجودکاروبار کا اکیلا مالک ہونے کی وجہ سے سیف الرحمان کے پاس سرمایہ کی کمی تھی جو اس کے کاشتکاری کے کاروبار میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ ایک ابھرتے ہوئے بزنس مین کے طورپر اس کے پاس موقع سے فائدہ اٹھانے کا ہنر تھا جس کی وجہ سے سیف الرحمان نے یو مائیکرو فنانس بینک سے رابطہ کیا۔ سنہرا سرمایہ لون کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اقساط کی بروقت ادائیگی کے نظام میں رہتے ہوئے اس نے اپنے کاروبار کو ترقی دینے میں مدد حاصل کی۔اس نے کاروبار میں جدت لاتے ہوئے دودھ کی فروخت کے ساتھ ساتھ مویشیوں کی تجارت بھی شروع کردی اوراپنے کاروبار کو ارد گرد کے علاقوں تک پھیلانے میں کامیاب رہا۔یو بینک لون سے ملنے والی انتہائی ضروری اورموزوں مالی مدد کی بدولت سیف الرحمن اس وقت چمبڑ کے علاقہ میں قائم سب سے بڑے مویشی فارموں میں سے ایک کا مالک بن چکاہے اور اپنے کاروبار کو روز بروز ترقی دے رہاہے۔
ضلع دادو سے تعلق رکھنے والا ایک عام شہری، منیر احمد کھوکھرجو پانچ بچوں کا باپ ہے۔ منیر احمد نے اپنے خاندان کی کفالت کرنے کے لیے اپنی جوانی سخت محنت میں گزاری۔مقامی طور پر ٹیوشن کی کلاسز دیتا تھا تاکہ خرچہ پورا کرنے میں مدد مل سکے۔ اس نے زندگی میں مسلسل ترقی کی، اپنے والدین کے ساتھ رہتے ہوئے اپنا گھر بسانے سے پہلے سرکاری ملازمت حاصل کی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس کے بہن بھائیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں،اس طرح ان کے آبائی گھر میں جگہ کم پڑ گئی،ان حالات میں اسے اپنی فیملی کے لیے الگ گھر تلاش کرنا ضروری ہوگیا۔ ایک تنخواہ دار فرد کے طور پر کام کرتے ہوئے، منیر احمدنے نئے گھر کے لیے بہت سی رقم جمع کرنے کے لیے بہت کوشش کی۔ اس نے فنانسنگ اسکیموں کی تلاش شروع کی اور خوش قسمتی سے اس کے لیے اسے یو مائیکرو فنانس بینک کے ہوم لون کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ حکومتی سبسڈی والا ایک ایسا منصوبہ ہے جو لوگوں کو آسان شرائط پر طویل المدتی قرض حاصل کرنے کی سہولت دیتا ہے۔ جلد ہی، منیراحمد اپنے ذاتی گھر کا مالک بن گیا، جس نے اپنی فیملی کو رہنے کی جگہ دینے کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی گھر میں اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے لیے جگہ خالی کردی۔ ہوم لون۔ گورنمنٹ مارک اپ سبسڈی اسکیم
پہاڑ پور تھل کے رہائشی کلیم اللہ بیس سال سے کھیتی باڑی کر رہے تھے۔اپنی مہارت پر انحصار کرنے والے کلیم اللہ کے پاس جدید مشینری تک رسائی نہیں تھی اور کاشتکاری کے وہی پرانے طریقے استعمال کررہے تھے جس کی وجہ سے ان کی کاشتکاری کی پیداوار اور آمدنی پرگہرے اثرات مرتب ہور ہے تھے۔ تاہم،جب انہیں یو مائیکرو فنانس بینک کے’ملت ٹریکٹر‘ قرض کے بارے میں معلوم ہوا توان کے لیے بہت سے دروازے کھلنے لگے۔یہ پراڈکٹ ان کسانوں کو ٹریکٹر اور زرعی آلات کی مالی معاونت فراہم کرتی ہے جو اتنی بھاری سرمایہ کاری یکمشت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس قرض کے ذریعے، کلیم اب نہ صرف اپنے ٹریکٹر کے قابل فخر مالک ہیں بلکہ اپنی فصل کی پیداوار کو دوگنا کرنے اور فصل کے معیار کو بہتر بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی کاروباری دور اندیشی نے انہیں اپنا ٹریکٹر قریبی کھیتوں میں کرائے پر دے کر اضافی آمدنی حاصل کرنے کے بھی قابل بنادیا ہے۔ کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ ''اپنا ٹریکٹر حاصل کرنا ایک بہت اچھا فیصلہ تھا کیونکہ اب میں اپنے فارم پر مستعدی اور آزادی کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہوں۔'' کلیم کہتے ہیں۔ کھیتی باڑی کے طریقوں کو بہتر بنانے کے منصوبوں کی بدولت اب کلیم اللہ مزید ترقی کرتے ہوئے کمرشل فارمنگ کی جانب گامزن ہے۔
راولپنڈی کے رہائشی خالد پرویز مرزا کئی سالوں سے ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ ٹائلز کے منافع بخش کاروبار کے علاوہ، خالد نے اپنے کیریئر کے دوران رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی کامیابی حاصل کی۔ جب خالد پرویز مرزا نے 2016 میں ریٹائر منٹ کا انتخاب کیا تو ریٹائرمنٹ کے فنڈز کے بہتر استعمال کے لیے یو بینک کے ڈپازٹ اکاؤنٹ کی سروسز استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔اس کی بدولت وہ اب بھی اپنے لیے کمائی کا ایک بہترذریعہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یو بینک کے”ثمر ٹرم ڈپازٹ اکاؤنٹ“نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ خالد پرویز مرزا اپنے گھر کے تمام مالی معاملات کا انتظام کرنے کے قابل ہوسکے۔ ماہانہ منافع کے ذریعے کمانے کے حوالے سے اپنے تجربہ بیان کرتے ہوئے خالد پرویز مرزانے کہا،”اپنی ماہانہ آمدنی اور اخراجات کے بارے میں فکر مند نہیں ہوں اور اپنے مالی معاملات کو آسانی سے سنبھالنے کے قابل بننے نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ میں اپنی ریٹائرمنٹ سے لطف اندوز ہوسکوں۔“
وال جیس ٹریولز سال1978 میں قائم ہونے والا ٹریول اور ٹور سروسز فراہم کرنے والا ایک بڑا ادارہ ہے۔ 2014 سے، کمپنی اپنے ملازمین کو ادائیگی کے لیے یو بینک کارپوریٹ پورٹل کے ذریعے یو بینک کے موبائل اکاؤنٹ کی خدمات استعمال کر رہی ہے۔وقت اور مقام سے قطع نظر، ان کے ڈرائیور آسانی سے اپنی تنخواہیں نکال سکتے ہیں اور اپنے یوپیسہ موبائل والیٹ اکاؤنٹس کی بدولت دیگر ضروری مالی لین دین کر سکتے ہیں۔ وال جیس ٹریولزکے جنرل مینیجر آپریشنز اینڈ سیلز، عمران حقانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،”یہ سہولت ہمارے ڈرائیوروں کے لیے بہت فائدہ مندہے اور ان کی ملازمت کی نوعیت کے مطابق ہے۔ اس کی مدد سے اب وہ پورے ملک میں سفر کرتے وقت اپنے فنڈز تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔مزید برآں، ایک آجر کے طور پر، یہ ہمیں تنخواہوں کی ادائیگی کا ڈیجیٹل طور پر انتظام کرنے کی بھی سہولت دیتا ہے جس سے یہ کام بہتر طریقے سے ہوتا ہے اور ہماراقیمتی وقت بھی بچ جاتا ہے۔“
یو مائیکرو فنانس بینک میں، ہمیں اپنے قابل قدر شراکت داروں کو بہترین سروسز فراہم کرنے پر فخر ہے۔ ایسی ہی ایک شراکت KFC کے ساتھ ہے، جو سب سے بڑی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فاسٹ فوڈ ز کی ایک عالمی چین ہے۔ یو بینک گزشتہ تین سال سے ملک بھر میں اپنے 90سے زائد ریستورانوں میں KFC پاکستان کوادائیگی کے حسب ضرورت حل فراہم کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسا حل ہے جس نے یو پیسہ موبائل والیٹ اکاؤنٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تنخواہوں کی تقسیم کے عمل میں اپنی کارکردگی کو زیادہ بہتر بنایا ہے۔ کے ایف سی کے ریجنل ہیڈ نارتھ جناب امجد میاں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،”یو بینک کی سروسز نے نہ صرف ہمارے ادائیگی کے حل اور تنخواہوں کی تقسیم کے طریقوں کو بہتر کیا ہے بلکہ ہماری کمپنی کے ملازمین کو زیادہ اطمینان بخشا ہے۔“ ایک سٹاف ممبر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ،”میں اپنے یو پیسہ اکاؤنٹ کے ذریعے اپنے فون پر صرف چند ٹیپس کے ذریعے آسانی سے ٹرانزیکشنزکر سکتا ہوں، جس سے مجھے اپنے ماہانہ بلز جمع کرانے میں بھی آسانی حاصل ہوجائے گی۔“ یو بینک صارفین کی سہولت کے لیے ٹیکنالوجی کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب کے ایف سی کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید بہتر بنانے کا ارادہ رکھتاہے۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی صائمہ اظفرسکول سسٹم کی بنیاد رکھنے کے اپنے عمر بھر کے خواب کو پورا کرنا چاہتی تھی۔ اسے جس مدد کی ضرورت تھی وہ یو مائیکرو فنانس بینک سے قرض کی صورت میں اسے ملی۔ قرض لینے سے قبل، مالی مسائل صائمہ کے لیے ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ معاشرے کو واپس لوٹانے کا ہمیشہ سے جذبہ رکھنے والی صائمہ اظفر نے پانچ سال قبل”اسلامیہ ماڈل سکول“ شروع کیا اور پھر انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک پلے گروپ انسٹی ٹیوٹ کے طور پر شروع ہونے والے سکول میں اس وقت آٹھویں جماعت تک کی کلاسیں شروع کرائی جا چکی ہیں جہاں پر800 روپے کی کم ترین فیس میں تعلیم تک رسائی دی جارہی ہے۔ صائمہ کے لیے یہ صرف ابتداء ہے کیونکہ تین کمروں والے اس سکول کو اپنی مرضی کے مطابق بڑی عمارت میں منتقل کرنا اس کا خواب ہے تاکہ طلباء کو بہترین تعلیمی ماحول فراہم کیاجاسکے۔ صائمہ کے والد ظفر علی بھی اس سکول کو شام کے وقت استعمال کرتے ہیں جہاں پر ایسے بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے جو صبح کے وقت سکول میں نہیں جاسکتے ہیں،اس طرح یہ سکول پوری فیملی کے لیے روزگار کا بہترین ذریعہ بن چکاہے۔ صائمہ اس وقت یوبینک سے چوتھی بار قرضہ لینے کا ارادہ رکھتی ہیں تاکہ بینک کی معاونت سے اپنے کاروبار کو مزید وسعت دی جاسکے۔ صائمہ اظفر
اگر یو بینک کا مائیکرو انٹر پرائز لون نہ ہوتا تومحمد شعیب کے کاروباری ارادے کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے تھے۔وہ گزشتہ پانچ سال سے ہری پور میں ایک ڈھابہ چلا رہے تھے جو اب یوبینک سے تیسری بار قرضہ حاصل لے چکے ہیں۔ محمد شعیب کے پاس ریسٹورنٹ بنانے کے لیے اگرچہ تمام لوازمات موجود تھے لیکن اس کی کامیابی کے لیے فرنیچر اور ضروری سامان خریدنے کے لیے انہیں نقدرقم کی ضرورت تھی جو اسے یوبینک تک لے آئی۔ محمد شعیب،اپنے گھر والوں کا واحد کفیل ہے جو یوبینک کی معاونت سے اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب رہاہے۔اب وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے سات ساتھ اپنے گھروالوں کی کفالت بھی کرسکتاہے۔ وہ چھوٹا سا ڈھابہ آج ایک ریسٹورنٹ بن چکا ہے اور مستقبل کے لیے اس کے بڑے منصوبے ہیں۔ محمد شعیب کا سفر
راولپنڈی میں فیکٹری کوارٹرز میں رہنے والی عزیز النساء نے سات سال قبل گھر کے اندر سنیک شاپ کھولنے کا فیصلہ کیا،مالی مسائل سے نمٹنے کے لیے اس نے یوبینک کی برانچ کا رخ کیا۔ اس وقت وہ چوتھی بار قرض لے چکی ہیں اوربروقت اور درست فیصلہ کی بدولت وہ اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ملنے والا ایک معقول منافع اسے اپنے بیٹوں کو معیاری تعلیم دلانے کا خواب پورا کرنے میں مدد دے رہاہے۔ اس کے خاندان کو سنگین مالی مسائل کا سامنا تھا جب عزیزالنساء نے معاشی استحکام کے لیے میدان عمل میں قدم رکھا،انہوں نے گھریلو معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانا شروع کیا۔اس وقت ان کے کاروباری عزائم بہت بلند ہیں اوراب ان کی خواہش ہے کہ کپڑے کا بزنس شروع کیا جائے۔ عزیز النساء
راولپنڈی کے رہائشی ظفر اقبال بھٹی 2014 سے بینک کے ڈپازٹ کسٹمر ہیں۔ظفر اقبال ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں جنہوں نے اپنے ریٹائرمنٹ فنڈ کو یوبینک میں لگانے کا فیصلہ کیا۔ سیونگ اکاؤنٹ سے نہ صرف ان کے لیے مستقل آمدنی شروع ہوگئی بلکہ ماہانہ اخراجات کو پورا کرنے اور اپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے انہیں مالی مددبھی حاصل ہو رہی ہے۔ بینک سے ملنے والے منافع کو دانشمندی سے استعمال میں لاتے ہوئے وہ کنسٹرکشن کابزنس شروع کرنے اور اسے بڑھانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ظفر اقبال بھٹی
نواب شاہ کے رہائشی فرقان علی گزشتہ دس سال سے ٹیلرنگ کا کاروبار کر رہے ہیں۔ جب اس نے حسینی روڈ پر اپنی دکان شروع کی تو اس کے پاس اپنی صرف ایک سلائی مشین تھی،اپنے روزگار چلانے کے لیے اسے بہت سے چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔تاہم چار سال پہلے اس کو یوبینک کا ایک نمائندہ ملا جو وہاں کے مقامی تاجرو ں اور کاروباری اداروں کو یوبینک کی قرض کی سہولت کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے مارکیٹ کا دورہ کر رہا تھا۔فرقان علی نے اس نمائندے کو اپنے دہائیوں پرانے خواب کی تکمیل کے طورپر دیکھا۔ پہلی بار جب اس نے قرضہ لیا تو اس رقم سے اس نے دوسلائی مشینیں خریدیں اور مزید ورکرز کو بھی اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب رہا۔اب وہ چار سال سے یوبینک کا کسٹمر ہے اور اس نے اپنا کاروبار مزید دو جگہوں پر شروع کرلیاہے، سلائی مشینوں کی تعداد سات کر لی ہے اورکام کے لیے مزید ورکرز بھی رکھ لیے ہیں۔ قرض کی بدولت اس نے نہ صرف ٹیلرنگ کے موجودہ کاروبار کو بڑھایا ہے بلکہ پورے نوابشاہ میں یونیفارم کی سلائی کا کام بھی شروع کردیاہے۔ فرقان کا خواب ابھی ختم نہیں ہوا، وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے زیادہ قرضہ لینے کے لیے دوبارہ درخواست دینا چاہتا ہے۔ یہ فائدہ صرف فرقان کے کاروبار تک محدود نہیں رہا بلکہ اپنے کاروبار کی ترقی اور آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے وہ اپنی شادی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دو بہن بھائیوں کی شادیاں کروانے میں بھی کامیاب رہا ہے۔ فرقان علی - نواب شاہ
بہاولپور کی دلاور کالونی کی رہائشی مسرت خورشید کے لیے گزشتہ 18 سالوں سے اپنی معذوری اور اس کے سلائی کے کاروبار کے بڑھتے ہوئے مطالبات سے متعلق طبی اخراجات کا انتظام اس کی صلاحیت کو محدود کر رہا تھا۔ ایک ایسے گھر میں جہاں وہ علاج معالجہ کے اخراجات، اسکول کی فیسوں اور گھر چلانے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس اپنے کاروبار کو پائیدار طریقے سے بڑھانے کے لیے مطلوبہ سرمایہ کبھی نہیں رہا تھا۔ ان حالات میں اس کے دو جاننے والے جنہوں نے مسرت خورشید کو یوبینک سے قرضہ لینے کی ترغیب دی کیونکہ انہوں نے پہلے ہی یو بینک سے قرض حاصل کر رکھا تھا۔ جو سلائی کا ایک سادہ کاروبار کے طور پر شروع ہوا تھا وہ اب بڑے کلاتھ ہاؤس تک پھیل چکا ہے جہاں گاہک سلے، ان سلے اور کڑھائی والے سمیت ہر قسمی کپڑے خرید سکتے ہیں۔ اب یو بینک کے ساتھ اپنے دوسری بار قرض لینے کی بدولت اس کا کاروبار اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ اب وہ متعدد سلائی مشینوں کی مالک ہے اور اپنے علاقہ کی دوسری لڑکیوں کوسلائی، کڑھائی بھی سکھاتی ہیں۔ان کی بڑھتی ہوئی آمدنی نے اس کے بچوں کے لیے اسکول جانے اور اپنے خاندان کا معیار زندگی بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اسے اپنے علاج معالجہ کے اخراجات خود ادا کرنے کے قابل بنا دیاہے۔مسرت خورشید اب لڑکیوں کو ہنرمند بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنا کاروبار چلانے کے لیے ان کی معاونت بھی کررہی ہیں۔ اس نے ان میں سے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے تا کہ وہ اپنے کاروبار کوچلانے اور مزید بڑھانے کے لیے یو بینک سے قرض حاصل کرلیں۔ مسرت خورشید - بہاولپور
جب سلیم نے پہلی بار یو بینک میں قرض کے لیے درخواست دی تو اس کے پاس اپنی کوئی ذاتی زمین نہیں تھی بلکہ اس کے پاس کرائے کا احاطہ تھا جس میں صرف چندمویشی تھے اور وہ روزگار کے لیے سخت محنت کررہا تھا۔ان حالات میں اس نے یو بینک کے نمائندے سے قرض کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا اور پہلے ہی قرضہ کی بدولت وہ مزید مویشی خریدنے، چارہ کا انتظام کرنے اور پھر ان مویشیوں کو فروخت کرنے کے قابل بن گیا۔ یو بینک سے لیے گئے قرضہ کو چار دفعہ دوہرانے کے بعداب محمد سلیم اپنے مویشیوں کے کاروبار کوکافی حد تک وسعت دینے میں کامیاب ہوچکا ہے۔اس نے اپنے تینوں بچوں کوبھی سکول میں داخل کروادیا ہے۔ محمد سلیم کے لیے جس چیز نے سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے وہ ہے تعاون،رہنمائی اور احترام جو اسے یو بینک کے صارف کے طور پرحاصل رہا ہے۔ اس نے دوسرے ضرورت مندوں کی معاونت کے لیے بھی یوبینک کو انہیں قرضہ جاری کرنے کی سفارش بھی کی ہے۔ محمد سلیم احمد - پور شرقیہ
نسیم عمران 35 سالہ تین بچوں کی ماں ہیں جو فیصل پارک ایمانیہ لاہور کے قریب رہتی ہیں۔ نسیم پچھلے 10 سالوں سے کام کر رہے ہیں اور فائل کور بنانے کے ایک چھوٹے سے کاروبار کے مالک ہیں۔ اسے مزید سلائی مشینیں خریدنے کے لیے اپنے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اس کی مالی حالت نے اسے زیادہ مقدار میں اعلیٰ معیار کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کرنے کی اجازت نہیں دی۔ یو مائیکرو فنانس بینک سے PKR 40,000 قرض نے اسے اپنے کاروبار کو بڑھانے اور پروڈکٹ کے معیار کو اپ گریڈ کرنے کی اجازت دی ہے جس سے وہ مزید رقم کما سکتی ہیں۔ نسیم عمران لاہور
خیبرپختونخوا کے علاقہ مردان سے تعلق رکھنے والے انس خان کا ہمیشہ کسی کے لیے کام کرنے کی بجائے ایک کاروباری شخصیت بننے کا خواب تھا۔ انہوں نے باعزت زندگی گزارنے کے لیے موبائل فون، ڈیجیٹل آلات اور ان کے سازوسامان کو فروخت کرنے کا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ اگرچہ اس کا کاروبار اچھا چل رہا تھا، اس نے محسوس کیا کہ مشکل معاشی حالات میں اسے منافع بڑھانے اور بہتر بنانے کے لیے مزید مالی معاونت کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے شہر میں شریعت کے مطابق قرضہ کی سروسز کی تلاش میں تھا اس دوران وہ اپنے قریب واقعہ یو بینک کی اسلامی بینکنگ برانچ پر پہنچا۔ انس نے اپنا کاروبار مرابحہ فنانسنگ سہولت کا انتخاب کیا اور کاروبار کی توسیع میں سرمایہ کاری کے لیے تین لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم حاصل کی۔ اسے فنانسنگ سے بہت فائدہ ہوا، کیونکہ کاروبارکو ترقی ملنے سے اسے اپنی فروخت بڑھانے، منافع میں اضافہ کرنے اور اپنی روزی روٹی کو بہتر بنانے میں مددملی۔ انس خان،مردان، صوبہ کے پی کے